کشمیری خواتین خواتین پرتشدد کے خاتمے کا دن بدترین تشدد کا شکار

خواتین پرتشدد کے خاتمے کا عالمی دن 25 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ جموں کشمیرمیں کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں  بھارتی فوجیوں نے خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں کپواڑہ اجتماعی زیادتی کا شکار، شوپیاں میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو خواتین اور کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغوا اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق، کشمیر میں بھارتی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے تنازعہ کشمےر کی وجہ سے کشمےری خواتےن سب سے زےادہ متاثر ہوئی ہےں کشمیریوں کی حق پر مبنی تحریک آزادی کو کمزور کرنے کیلئے بھارتی فوجیوںکی طرف سے کشمیری خواتین کو جنسی طورپر ہراساں کرنا روز کا معمول بن گیا ہے۔ حریت رہنماءسیدہ آسیہ اندرابی ، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین گزشتہ تین برس سے بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں غیر قانونی طورپر مسلسل نظربند ہیں جبکہ متعدد خواتین جموں اور کشمیر کے جیلوں میں بھی بند رکھے گئے ہیں جنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جسمیںخواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں۔  خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معذور اور قتل کیا گیا۔ کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسیاستحصال کا شکار ہوئی ہیں۔بھارتی فوج کی چوتھی اجپوتانہ رائفلز کے جوانوں نے 23 فروری 1991 کو جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گاو¿ں کنن پوش پورہ میں سرچ آپریشن شروع کیا۔جس کے بعد 23 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
 

 شوپیاں میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پولیس کے اہلکاروں اور ہندو مذہبی پادری نے گزشتہ سال کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواءاور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیا تھا۔  رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق ، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ساو¿تھ ایشین وائر کی رپورٹ میں ایک اسکالر انجر سکجلس بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو “کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر” قرار دیا ہے۔ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب بھارتی افواج اور پولیس اہلکار سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو گرفتار کرتے ہیں یا تشدد کرتے ہیں     انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں، پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں، بلکہ فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہیں ہیں۔ فوجیوں کے کچھ انٹرویو زکے دوران اس سوال پرکہ انہوں نے مقامی کشمیری خواتین سے زیادتی کیوں کی، کچھ نے جواب دیا کہ کشمیری خواتین خوبصورت ہیں،دوسروں نے کہا کہ یہ غیر فیملی سٹیشن ہے۔ ایک سپاہی نے جواب دیا کہ اس نے بدلے میں ایک کشمیری خاتون کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ "ان کے مردوں نے اس کی برادری کی خواتین کے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک کیا"۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے شہیدکرنے کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان اور طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں۔ ان زخمیوں میں سے انشا مشتاق اورافرا شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 18ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طورپر متاثر ہوئی ۔ آزادی پسند رہنماو¿ں آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین پر نظربند ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کشمیریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ جن کے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔    ضلع ڈوڈہ کے تحصیل کاستی گڑھ کے گاﺅں دھار ، کے رہائشی ، غلام محمد بٹ 19سال سے بھارتی فوج کے ہاتھوں مغوی ہونے والے اپنی بیٹی کی بازیابی کامنتظر ہے کشمیری باپ اپنی مغوی بیٹی کو دیکھنے کے لئے 19سال سے منتظر ڈوڈا ضلع کی تحصیل کاستی گڑھ کے گاﺅں دھار ، کے رہائشی ، غلام محمد بٹ بھارتی فوج کی اس بے رحمی کے زندہ گواہ ہیں جب جموں و کشمیر کے اس سابقہ ضلع میں ان کی 16 سالہ بیٹی کو ایک وحشیانہ کاروائی میں فوجی ہلکاروں نے دو پولیس اہلکاروں ایس پی او کی مدد سے اغوا کیا ۔90 سالہ غلام محمد بھٹ ، خستہ حال سنگل اسٹوری مٹی کے مکان میں رہتے ہیں ۔انہوں نے مقامی اردو ہفت روزہ وار اخبار ، سدہ کوہسار میں 22 اپریل 2003 کو شائع ایک خبر نامہ نگار کو دکھائی جس میں ان کی بیٹی کی تصویر تھی۔ غلام محمدنے بتایا کہ ان کی بیٹی کا نام ممتاز تھا۔ اس نے 2000 کے ابتدائی مہینوں میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا ۔ ممتاز اپنے گاں سے روزانہ ایک گھنٹہ فاصلہ طے کرکے تک کاسٹ گڑھ میں اپنے اسکول تک جاتی تھی ۔ وہ انگریزی زبان سیکھنے کے جنون میں مبتلا تھی اور ایک استاد بننا اس کا خواب تھا۔غلام محمد کے دو بیٹے گجرات کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھے اور دیگر دو بیٹیاں شادی شدہ تھیں اور دور دیہات میں الگ رہائش پذیر تھیں۔3 جون 2000 کو جب غلام محمد اپنے دو بیٹوں کے ساتھ اپنے ریوڑ کو چرانے کے لئے دور دراز جنگل میں تھے، سولہ سالہ ممتاز بانو اور 19 سالہ فریدہ بانو گھر کی دیکھ بھال کے لئے اپنی والدہ زونا بیگم کے ساتھ گھر پر موجودتھیں۔سہ پہر دو ایس پی او اہلکار 10 راشٹریہ رائفلز (آر آر) کے فوجی جوانوں کے ساتھ معمول کے گشت پر آئے۔ ان کے گھر سے گزرتے ہوئے ، فوجیوں نے ان کے دوکتوںکو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔ممتاز اور فریدہ نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے ان کتوں کو کیوں مارا ، تو فوجی جوانوں کا کہنا تھا کہ جب بھی وہ گاﺅں سے گزرتے تھے ، کتے ان پر بھونکتے تھے اور اس سے شدت پسندوں کو اس علاقے سے فرار ہونے میں مدد ملتی تھی۔لیکن کنبے کے افراد کو ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ ان پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے ۔ 4 جون 2000 کو ، جب غلام محمد اور اس کے دو بیٹے اپنے ریوڑ کو چرانے جنگل میں تھے ، اچانک ، انکے گھر کے دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔غلام محمد کی بیوی زونا کا کہنا ہے کہ ہم نے دروازہ نہیں کھولا۔ وہ اچانک لوہے کی گرل توڑنے کے بعد وہ کھڑکی کے اندر سے گھس گئے اور میری بیٹی ممتاز کو گھسیٹنے لگے۔ میں اور فریدہ نے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں لیکن وہ بہت طاقتور تھے۔زونا کو اب بھی یاد ہے ، کہ اس کی بیٹی کس طرح رو رہی تھی اور سسک رہی تھی ۔ وہ کہتی ہیں کہ رات کے آخری لمحات میں وہ اسے لے کر چلے گئے۔یہ آخری بار تھا جب کسی نے ممتاز کے بارے میں دیکھا یا سنا تھا۔ فوری طور پر غلام محمد کو پیغام بھجوایا گیا۔ پیغام ان تک دیر سے پہنچا اور وہ ساتویں دن واپس پہنچ سکے اور فورا ایف آئی آردرج کروانے کے لئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ڈوڈا پہنچے۔ایف آئی آر میں انہوں نے دو مقامی ایس پی او کا نام لیاجو کاستی گڑھ میں تعینات مقامی فوج کے یونٹ میں مخبر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ جیسے ہی وہ تھانے سے باہر نکلے، کچھ فوجی جوان انہیں سیدھے ڈوڈا ٹان کے پولیس لائنزمیں واقع ایک بھارتی فوجی کمانڈر کے دفتر لے گئے۔غلام محمد بتاتے ہیں کہ آرمی یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر نے اپنے دوسرے انچارج سے کہا کہ وہ مجھے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ڈوڈا کے پاس لے جائیں ۔ وہاں ایک سکھ ایس پی تھا جو کشمیری زبان اچھی طرح سے بولتا تھا ۔ اس نے مجھے اس کیس کو واپس لینے کے بدلے چھ لاکھ روپے اور ملازمت کی پیش کش کی ، ۔ لیکن میں نے اس کی پیش کش کو مسترد کردیا اور اپنی بیٹی کی مردہ یا زندہ واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس پر مجھے انہوںنے دھکے دے کر نکال دیا۔اس کے بعد سے ، تھانے میں درج اس مقدمے میں غریب ، بوڑھے کو اسٹیشن کے بے شمار چکر لگانا پڑے۔غلام محمد کہتے ہیں، جب بھی میں ان سے ملتا ، وہ مجھ سے گواہ لانے کو کہتے تھے۔ اس وقت صرف میری بیٹی اور اس کی والدہ موجود تھیں۔ گواہ کی تلاش کرنا کیا میرا کام ہے یا ان کا؟ممتاز کے لاپتا ہونے کے ایک سال بعد ، اس کی بڑی بہن 19 سالہ فریدہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکی اور دل کے دورے سے انتقال کر گئی ۔غلام محمد نے انصاف کے لئے جدوجہد جاری رکھی، انہوں نے اغوا کے کچھ مہینوں بعد ہی اس معاملے کو جموں وکشمیر ریاستی انسانی حقوق کمیشن (جے کے ایس ایچ آر سی) ، سری نگر میںدائر کیا ، جہاں کچھ سماعتوں کے بعد کمیشن کے چیئرمین تبدیل ہوگئے اور یہ معاملہ وہیں روک دیا گیا۔ بعد ازان یہ کیس جموں کی کرائم برانچ منتقل ہوگیا، جہاں ایک بار پھر عہدیداروں نے ان سے گواہوں کے ساتھ آنے کو کہا۔ غلام محمد کہتے ہیں، اس کیس کی پیروی کے لئے مجھے جموں اور سری نگر کے سفر کے لئے اپنے مال مویشی بیچنا پڑے۔ میں اب بھی جو کچھ سننا چاہتا ہوںوہ یہ ہے کہ میری بیٹی مر چکی ہے یا زندہ ہے؟ ممتاز کے چھ بہن بھائیوںاور والدہ کو اب بھی یقین ہے کہ شاید ان کی بیٹی ابھی تک زندہ ہے۔ ، غلام محمد کہتے ہیں، میں اب بھی یہ چاہتا ہوں کہ اگر وہ مر چکی ہے تو وہ مجھے اس کی قبر دکھادیں ، تاکہ میں سکون سے مر توسکوں۔