مارچ 19,2019 سرینگر/ پلوامہ اونتی پورہ کے 28سالہ نوجوان سکالر رضوان اسد پنڈت کی گرفتاری کے بعد انڑوگیشن سنٹرکارگو کیمپ سرینگر میں کی حراستی موت واقع ہوئی بھارتی خفیہ ایجنسی این آئی اے اور بھارتی فورسز اور پولیس فورسز کی جانب سے چند روز قبل حراست میں لیے گئے جنوبی کشمیر اونتی کے 28سالہ نوجوان رضوان اسد پنڈت کی سرینگر کے کارگو کیمپ میں موت واقع ہوئی ہے۔ مظلو
م پیشے سے ا±ستاد 28سالہ نوجوان رضوان اسد پنڈٹ ساکن اونتی پورہ کوچند روز قبل شبانہ چھاپے کے دوران بھارتی فورسز اہلکاروں نے اپنے گھر واقع اونتی پورہ سے کسی کیس کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کے لیے حراست میںلے لیا تھا۔ خاندانی ذرائع کے مطابق رضوان کو پہلے مقامی طور پر پولیس تھانے میں مقید رکھا گیا جس کے بعد ا±سے سرینگر کے ایس او جی کارگو کیمپ منتقل کیا گیا جہاں پیر اور منگل کی درمیانی شب پولیس حراست میں نوجوان کی موت واقع ہوگئی۔
پولیس نے واقعے سے متعلق 176سی آر پی سی کے تحت مجسٹریل انکوائری کے لیے درخواست پیش کرنے کے علاوہ خود بھی واقعے کی چھان بین شروع کی ہے۔ادھررضوان کے اہل خانہ نے واقعے کو بہیمانہ ہلاکت قرار دیا ہے۔اہلخانہ کے مطابق رضوان پیشے سے مقامی طور پر اسکول میں پرنسپل کی خدمات انجام دے رہے تھے جس کے ساتھ ساتھ ا±س کا ایک ذاتی ٹیوشن سنٹر بھی تھا۔ انہوں نے بتایا کہ رضوان نے زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ایسے میں اسے بہیمانہ طریقے سے زیر حراست جاں بحق کیا گیا۔رضوان کے بھائی ذوالقرنین اسعد کا کہنا ہے کہ” میرے بھائی کو بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی آڑ میں گرفتار کیا تاہم بعد میں ا±سے رہا بھی کیا گیا۔وہ کسی بھی عسکری تنظیم کے ساتھ وابستہ نہیں رہا ہے، اس کی ہلاکت بہیمانہ اور بے رحمی کی انتہا ہے“۔انہوں نے کہا کہ ”دو روز قبل دوران شب ہمارے گھر کو مقامی پولیس تھانے کے اہلکاروں جن کی قیادت ڈی ایس پی کررہے تھے نے محاصرے میں لے لیا جس کے بعد پورے گھر کی تلاشی لی گئی۔ پولیس پارٹی نے گھر کے تمام افراد کو باہر جمع کیاجس کے بعد گھر کے تمام افراد بشمول خواتین کو کمرے میں بند رکھا گیا جس کا دروازہ باہر سے مقفل کیا گیا،اس کے بعد ہمارے بھائی رضوان کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی“۔ذی الفقار کا کہنا ہے کہ ”دوسرے دن گھر کے افرادرضوان کا اتہ پتہ معلوم کرنے کی خاطر مقامی پولیس تھانے پہنچے جہاں پولیس افسران نے ہمیں خاموش رہنے کو کہا۔ ہمیں بتایا کہ رضوان کی گرفتاری سے متعلق کسی کے ساتھ بھی رابطہ نہ کیا جائے“۔ اہلخانہ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ رضوان سے متعلق تمام تفصیلات آپ کو وقت پر دی جائیں گی۔ انہوں نے ہمیں رضوان کی کارگو منتقلی سے مکمل طور پر بے خبر رکھا جبکہ اس دوران پولیس نے رضوان کی رہائی سے متعلق کلی طور پر بے بسی کا اظہار کیا۔اہل خانہ نے بتایا کہ منگلوار کی صبح ہمیں اطلاع موصول ہوئی کہ رضوان کو سرینگر کے ایس اوہ جی کارگو کیمپ میں زیر حراست موت واقع ہوئی ہے۔
رضوان کے بھائی ذی القرنین کا کہنا تھا کہ ”میرا بھائی پولیس کی حراست میں تھا اور اسے ٹھرڈ ڈگری ٹارچر کے ذریعے جاں بحق کیا گیا ہے، میرے بھائی کو بہیمانہ طریقے پر اور بے رحمی کے ساتھ جاں بحق کیا گیا“۔اہل خانہ نے بتایا کہ ستمبر 2018میں رضوان کو پولیس نے گرفتار کرتے ہوئے کالے قا نوں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا جس کے بعد ا±ن کا پی ایس اے 30نومبر 2018کو عدالت منسوخ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ رضوان کو اس دوران کٹھوعہ جیل صوبہ جموں منتقل کیا گیا تاہم جونہی عدالت نے موصوف پر عائد پی ایس اے کو منسوخ کردیا تو اس کے باوجود رضوان کئی دنوں تک مقامی پولیس تھانے میں غیر قانونی طور پر مقید رہے۔اہل خانہ کا کہنا تھا کہ اگر چہ اس دوران ہم نے رضوان کی رہائی کے حق میں پلوامہ عدالت سے ضمانت بھی حاصل کی تاہم اس کے باوجود پولیس نے ا±سے رہا کرنے سے انکار کیا۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نے عدالتی احکامات کے باوجود بھی رضوان کو 20دنوں تک تھانے میں بند رکھا۔اہل خانہ کے مطابق رضوان نے گزشتہ دو ڈھائی مہینے سے اپنی زندگی کو پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ، وہ ذاتی طور پر اونتی پورہ میں ایک ٹیوشن سنٹر چلارہے تھے جہاں وہ سینکڑوں طلبا و طالبات کو پڑھارہا تھا۔ رضوان اس کے علاوہ صابر عبداللہ پبلک اسکول جاوبارا واقع اونتی پورہ میں بحیثیت پرنسپل اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔رضوان کے بھائی ذی القرنین کا کہنا تھا کہ میرے بھائی نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی جبکہ اس دوران انہوں نے سائنس اور ایجوکیشن میں ماسٹرس کی ڈگر ی حاصل کی۔ اہلخانہ کے مطابق رضوان اور ا±ن کے والد اسعد اللہ پنڈت جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے لیکن جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔ادھر پولیس نے رضوان کے حراستی قتل سے متعلق بیان میں کہا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق رضوان اب تک تین مرتبہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔موصوف کے خلاف ایف آئی آر زیر نمبر 146/2018زیر دفعہ 7/25پولیس تھانہ اونتی پورہ کے نتیجے میں انہیں 08/09/2018کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا جس کے بعد عدالت نے ا±ن پر عائد پی ایس اے کو 30/11/2018کو منسوخ کردیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس کے بعد موصوف کو دوبارہ دسمبر2018کو گرفتار کرلیا گیا تاہم اسی روز موصوف کو رہا کیا گیا۔انہوں نے بتایاکہ 18مارچ 2019کو رضوان کو دوبارہ گرفتار جعلی کیس کیا گیا جس کے بعد انہیں پولیس تھانہ اونتی پورہ منتقل کیا گیاجس کے بعد ا±ن کی زیر حراست موت واقع ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ رضوان کی زیر حراست موت سے متعلق قواعد و ضوابط کی روشنی میں 176سی آر پی سی کے تحت مجسٹریل انکوائری شروع کی جاچکی ہے جسکے ساتھ ساتھ پولیس نے واقعے سے متعلق تفصیلی چھان بین کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ادھر نوجوان کے زیر حراست قتل کی خبر پھیلتے ہی وادی بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی جس کے ساتھ ہی پلوامہ اور شہر کے مائسمہ علاقوں میںتمام قسم کے معمولات ٹھپ ہوکر رہ گئے
مقامی پولیس نے حراست کے دوران نوجوان کی ہلاکت کااعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پولیس تحقیقات کا آغاز کیا گیاجبکہ ضلع مجسٹریٹ سرینگر نے مہلوک نوجوان کی موت کی اصل حقائق جاننے کیلئے مجسٹرئیل انکوائر ی بھی شروع کی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق شام7بجکر10منٹ پر رضوان کی نعش ان کے اہل خانہ و رشتہ داروں نے پولیس تھانہ اونتی پورہ سے حاصل کی،جس کے بعد انہیں گھر پہنچایا گیا،جہاں ہر سو ماتم کا سماں نظر آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق نوجوانوں نے آزادی کے حق میں نعرے بلند کئے۔بعد میں اسکی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انہیں سپرد خاک کیا گیا۔مقامی لوگوں کے مطابق رضوان پنڈت اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی وابستہ تھا،اور مقامی طور پر الائٹ نامی کوچنگ سینٹر میں بھی پڑھتا تھا۔اہل خانہ کا کہنا تھا” رضوان کو گھر سے گرفتار کیا گیا،انہیں واپس گھر میں ہی چھوڑ دیا جائے۔‘
۔ رضوان کے برادر نے بتایا ” منگل کی صبح ہمیں اطلاع موصول ہوئی کہ رضوان کو سرینگر کے کارگو کیمپ میں زیر حراست جاں بحق کردیا گیا ہے“۔ان کا کہنا تھا کہ6ماہ قبل جب رضوان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی اور عدالت نے ان پر عائد پی ایس کو بھی کالعدم قرار دیا تھا،اور ضمانت بھی دی گئی تھی،تاہم اس کے باوجود انہیں20روز تک بلا جواز حراست میں رکھا گیا تھا۔ ذوالقرنین نے بتایا کہ انکے والد جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں،اور یہ کوئی گناہ نہیں۔
ضلع سرینگر اور بڈگام میں موبائیل انٹرنیٹ کی رفتار ٹو جی تک گھٹا دی گئی ہے جبکہ جنوبی کشمیر میں اس سروس کو بند کردیا گیا ہے۔
درین اثناء پلوامہ میں 18اور 19مارچ کی درمیانی رات کو بھارتی فورسز نے سات مقامات پر چھاپے ڈالے جس دوران مرکزی جامع مسجد وشہ بوگ پلوامہ کے امام و خطیب محمد امین شاہ سمیت 16افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس نے گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ نوجوانوں کو 18اور 19مارچ کی درمیانی رات کو پولیس ، بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز نے پلوامہ کے نامن، لرہ بل ، بیگم باغ ، کاکہ پورہ ، دربگام ، راجپورہ ، ڈانگر پورہ علاقوں کو محاصرے میں لے کر بڑے پیمانے پر تلاشی آپریشن شروع کیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق فورسز نے کئی گھنٹوں تک گھر گھر تلاشی لی جس دوران 16افراد کو گرفتار کیا گیا