مقبوضہ کشمیر پربھارتی غاصبانہ قبضے کے 103دن: کشمیر مرکز شماریات

                                                                                           (کشمیر مرکز شماریات Kashmir Statistics Centre 15 November, 2019 ) 
٭....آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت ، کرفیو اور لاک ڈاﺅن کے 103دن مکمل ہوگئے ہیں ۔بھارت 5اگست سے  بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنا ناجائز اور غیر قانونی قبضہ مستحکم کررہا ہے جس سے جنوبی ایشیا میں تناو¿ اور کشیدگی میںتیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔اس وقت سے پابندیوں اور سختیوں کے سامنے کشمیری قوم سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے۔ کشمیر یوں کے عزم و ہمت نے بھارتی حکومت کا سفاک چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ یاد رہے بھارت کا سیکولر ملک ہونے کادعویٰ آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کے دور میں بے نقاب ہو گیا ہے ، کہ بھارت ایک ہندو راشٹریہ ریاست ہے جس میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔

٭....پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی ساتھ ہی بھارتی حکومت نے کشمیریوں کوتین مہینوں سے زیادہ عرصے سے محاصرے میں رکھ کر تقریباتیس ہزار کشمیریوںکو، تھانوں، جیلوں اور تفتیشی مراکز میں بندکردیا۔جن میںوادی کے سرکردہ حریت پسند رہنماو¿ں کے ساتھ ساتھ وکلائ، کمسن بچے اور بھارت نواز سیاستدان بھی شامل ہیں۔
٭....مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسزنے لاک ڈاو¿ن کے دوران تقریباًساٹھ افراد جن میں خواتین اور کم عمر لڑکے شامل ہیں، کو گولیوں کا نشانہ بنایا ہے۔
٭....جموں و کشمیر بھارتی آئین کے آرٹیکل کی دفعہ 35A اور370کو ختم کرنے اور اسے مقبوضہ علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد آج پندرہواں جمعہ ہے جب سرینگر کی مرکزی جامع مسجد  میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
٭....مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار درگاہ حضرت بل میں عید میلا النبی ﷺ کے روز بھی عبادت پر پابندی عائد کر دی گئی ۔عاشورہ اور عید میلا النبی ﷺ کے موقع پر کسی قسم کے مذہبی اجتماعات کی اجازت نہیںدی گئی ۔
 

٭....پوری دنیا میں انٹرنیٹ کو بنیادی ضروریات میں شامل کیا جا رہا ہے ۔کشمیر میں صحافیوں سمیت پوری آبادی انٹرنیٹ سے مسلسل محروم ہے۔کشمیر مواصلاتی پابندیوں کی وجہ سے اخبارات کی اشاعت معطل جبکہ صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اور کشمیری تاجروں کا رابطہ بیرون دنیا سے منقطع ہونے سے ان کی کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیںاورانہیں اربوں روپے کے بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔
٭....مقبوضہ کشمیر میں کاروبار کے تمام شعبوں کو پچھلے تین ماہ میں دس ہزار کروڑ روپے کا شدید نقصان پہنچا ہے۔ٹرین سروس معطل رہنے سے وادی کشمیر میں محکمہ ریلوے کو 2.76 کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا ۔
5 اگست کے بعد وادی کشمیر میں دس لاکھ سے زائد ورکرز، جن میں سے نصف غیر کشمیری ہیں، اپنی ملازمت سے محروم ہوچکے ہیں۔انٹرنیٹ بند ہونے سے سافٹ ویئر انجینئرز اور آن لائن پلیٹ فارم کے لئے کام کرنے والے ہزاروں افرادبے روزگار ہوچکے ہیں۔صرف قالین بافی کی صنعت میں پچاس ہزار ملازمتیں ختم ہوئی ہیں اوراس کاروبار سے وابستہ 7لاکھ لوگ اپنے کاروبار سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔مقبوضہ کشمیرمیں تین ہزار ہوٹل بند ہونے سے ہوٹل انڈسٹری مکمل طورتباہ ہوچکی ہے اور اس سے وابستہ ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو چکے ہیں،سیاحت کی صنعت بھی بھارتی پابندیوںکی وجہ سے تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔
٭....مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارتی فوج نے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ جس سے سب سے زیادہ متاثر تعلیمی شعبہ ہوا ہے۔وادی کے تمام تعلیمی ادارے جزوی یا کلی طور بند ہیں اور تعلیمی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نتیجے کے طور پر 15لاکھ طلبہ کا تعلیمی مستقبل داﺅ پر لگا ہوا ہے۔وادی میں گزشتہ تین ماہ سے پبلک ٹرانسپورٹ مسلسل معطل ہے جس کے باعث ٹرانسپورٹ مالکان کو شدید نقصان ہوا اور لوگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ طلبا کے لیے امتحانات کے دوران ٹرانسپورٹ کی سہولت کی فراہمی کے انتظامیہ کے دعوے سراب ثابت ہوئے ہیں کیونکہ دور افتادہ علاقوں کے طلبا کو امتحانی سینٹروں تک پہنچنے کے لیے پیدل سفرکرنا پڑتا ہے۔
٭....بھارتی قابض فوج نے مقبوضہ کشمیرکی معیشت کو تباہ اور مقبوضہ علاقے کے عوام کوگھروںمیں محصورکر کے بھوکا مرنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ وہ بھارت کا غیر قانونی تسلط قبول کرتے ہوئے شکست مان لیں۔وادی میںمریض اور بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں کیونکہ خوف و ہراس اور پابندیوں کی وجہ سے ان کی زندگی مکمل طور پر مفلوج کردی ہے، علاقے میں پانی سمیت بنیادی اشیائے خوردونوش کی فراہمی مسلسل معطل ہے اور انہیں زندگی بچانے والی دوائیں تک بھی میسر نہیں ہیں۔
٭....5 اگست کے بعد وادی کشمیر کا دورہ کرنے والی انسانی حقوق اور بھارتی وکلاءکی ایک ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں عملی طور پر عدالتی نظام مفلوج ہے اور عام لوگوں کی اکثریت تشدد اور نفسیاتی صدمے سے دوچارہے۔عام لوگوں کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کرکے بدترین ظلم وتشدد کانشانہ بنایا جاتا ہے ۔جس کے بعد متاثرہ افراد کی چیخیں ریکارڈ کی جاتی ہیں اور لوگوںمیںخوف و ہراس پھیلانے کیلئے لاو¿ڈ اسپیکر پران چیخوںکو سنایا جاتا ہے ۔عام لوگوں کو گرفتار کرکے ان کے نازک اعضاءپر بجلی کاکرنٹ لگایاجاتا ہے جوکہ غیر انسانی تشدد کی بدترین مثال ہے ۔لڑکوں اور خواتین کاجنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی متاثرہ شخص یا دیگرافرادبھارتی فورسز کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کے خوف فورسز کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر گواہی دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
٭....بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری لاک ڈاو¿ن کے سبب ٹیلی کام سیکٹر کو اربوں روپے کا بھاری نقصان ہوا ہے۔
٭....بھارت نے آزاد کشمیر میںکنٹرول لائن پرمسلسل شہری آبادی کو بلا اشتعال فائرنگ کانشانہ بنا کر مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورتحال سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی مذموم کوشش کررہا ہے۔
٭....بھارت حقوق انسانی کے عالمی اداروں اور سفارتی عملے کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے وہاں جانے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔
[15/11/2019]نومبرسہہ پہر تین بجے اسلام آباد ہوٹل
 کشمیرشماریات مرکز (KSC) اور کشمیری صحافیوں کی تنظیم ایسوسی ایشین آف کشمیری ڈس پلیسڈ جرنلسٹس(AKDJ) کے زیر انتظام15نومبرسہہ پہر تین بجے اسلام آباد ہوٹل میں ایک سیمینارمنعقد کیا  جس کا عنوان '
تنازعہ کشمیر : بھارت کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، بھارتی تسلط اور ہندوتوا۔ امن اور انسانیت کے لئے چیلنج اور خطرہ'ہے۔مہمان خصوصی وفاقی وزیربرائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور  خصوصی تقریر (لیکچر) ڈاکٹر محمد فیصل ترجمان دفترخارجہ ،  ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے ایم ایس شیخ تجمل الاسلام ، چیئرمین تنظیم امن و ثقافت مشعال حسین ملک ماہربین الاقوامی قانون بیرسٹر افضل حسین جعفری اپنے خیالات کا اظہار کیا