سرینگر 24 جنوری :غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی قابض انتظامیہ کنٹرول لائن کے قریبی اضلاع میں ہندوﺅںکو ہتھیاروں سے مسلح کر رہی ہے جس سے کشمیری عوام میں شدید خو ف و ہراس پید اہو گیا ہے ۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ضلع راجوری کے گاﺅں ڈانگری اور دراج کے عوام میں ہندوﺅں کو مسلح کئے جانے کی وجہ سے شدید خوف ودہشت میں مبتلا ہیں۔ڈانگری میں دو ہفتے قبل نامعلوم افراد کی فائرنگ سے اور دھماکے میں دو بچے سمیت سات افراد جاںبحق ہو گئے تھے ۔گاﺅں کے رہائشی اجندر کمار نے میڈیا کو بتایا ہے کہ قاتلوںکی عدم گرفتاری کی وجہ سے لوگوں میں شدید خو ف و ہراس پایاجاتا ہے ۔ گاﺅں کی رہائشی ایک خاتون نے بتایا کہ رات کے وقت انہیں جب بھی کوئی آواز سنائی دیتی ہے تو وہ شدید خوف کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کا دل بیٹھنا شروع کر دیتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ کنٹرول لائن کے قریبی اضلاع راجوری اور پونچھ کے علاوہ دریائے چناب اور پیرپنچال پہاڑی سلسلے کی دوسری جانب واقع ڈوڈہ، کشتواڑ اور بھدرواہ کے اضلاع میں بھی بھارتی فوج، پولیس اور نیم فوجی اہلکار اور خفیہ ایجنسیاں غیر کشمیری ہندو ں جن میں بیشتر ہندواتا آر ایس ایس ، بی جے پی اور وی ایچ پی سے وابستہ مسلمان اور کشمیر دشمن گروپ شامل ہیں کو ہتھیار فراہم کر رہی ہے ۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران ان اضلاع کے ہندوﺅں میں 30ہزار تھری ناٹ تھری رائفلیں تقسیم کی گئی ہیں اور اب یہ ہندو مزید جدید ہتھیار وں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔دیلج ڈیفنس گروپوں میں شامل ہندوﺅں کو بھارتی فوج ہتھیاروں کے علاوہ تربیت بھی فراہم کر رہی۔ وی ڈی جیسے وابستہ مسلح اہلکار بستیوں اوردیہات میں گشت کر رہے ہیں جس کے باعث علاقے کے مسلمانوں میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔
12 سال قبل راجوری ضلع کے دراج گاﺅں میں بھی ایک مسلح شخص، عبدالرشید کے گھر میں داخل ہوا تھا اور اس کے نوجوان بیٹے شفیق احمد کو گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔فرق اتنا ہے کہ د و ہفتے قبل راجوری ڈانگری کے قتل میں نامعلوم افراد کا ہاتھ تھا، جبکہ راجوری دراج گاوں میں ہوئے قتل میں بھارتی افواج اور حکومت کی سرپرستی والی ویلیج ڈیفینس کمیٹی یا وی ڈی سی کا مسلح اہلکار ملوث تھا۔سنہ 2010 میں وی ڈی جی کی جگہ ویلیج ڈیفنس کمیٹی یعنی وی ڈی سی ہوا کرتی تھی۔
اسی سال ایک وی ڈی سی اہلکار ماسٹر عبدالرشید کے گھر میں داخل ہوا اور فائرنگ کرنے لگا، تاہم عبدالرشید اور اس کے گھر کے باقی افراد نے مزاحمت کی جس کے بعد وی ڈی سی اہلکار نے ان کے تین سالہ بیٹے شفیق احمد کو گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔شفیق کی بیوہ نسرینہ کہتی ہیں کہ ہمارا بیٹا تین سال کا تھا۔ ایک دن پہلے ہم باتیں کر رہے تھے کہ بیٹے کو اچھے سکول میں داخل کریں گے، لیکن وہ خواب دوسرے روز چکنا چور ہو گیا۔
ایک بار پھر وی ڈی جی کی تشکیل سے نسرینہ اور اس جیسی متعدد خواتین خوفزدہ ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ اگر اس وقت ان پر کنٹرول نہیں تھا تو آج کیسے ہو گا۔
ہم خود کو کیسے محفوظ سمجھیں۔ بہت ڈر لگتا ہے۔ ویلیج ڈیفینس کمیٹی یا وی ڈی سی اہکاروں کے ہاتھوں زیادتیوں اور دہشت گردی کی ایسی بے شمار حقائق پر رپورٹ اور شکایات ہیں اور جسکی وجہ سے سنہ 2018 میں ان کمیٹیوں کو کچھ علاقوں میں غیر مسلح کر دیا تھا، لیکن ڈانگری کی تازہ قتل کے واردات کے بعد نئے ویلیج ڈیفینس گارڈز وی ڈی جی کو ایک بار پھر بھارتی حکام نے نئے اور جدید ہتھیاروں اور تربیت کے ساتھ مسلح کیا جا رہا ہے۔
بی بی لکھتا ہے کہ دراج گاوں کے سرپنچ فاروق انقلابی کہتے ہیں کہ سکیورٹی صورتحال سب کے لیے یکساں ہوتی ہے خطرہ تو سب کو ہے،
مسلمانوں کو بھی ہتھیار د ئے جا یئے ہندووں کو خطرہ ہے تو مسلمانوں کو بھی خطرہ ہے۔ ہمیں وی ڈی جی کی تشکیل سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جب ایک فرقے یعنی ہندوں کو ہتھیار دیے جائیں تو دوسرا فرقہ مسلماں غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہاں شفیق احمد کے قتل جیسی متعدد وارداتیں ہوئی ہیں، حکومت بھی جانتی ہے۔ اگر شہریوں کو ذاتی حفاظت کے لیے مسلح کرنا ہی ہے تو مسلمانوں کو بھی مسلح کریں۔