سرینگر 29اپریل 2020 : شوپیان میلہورہ زینہ پورہ شوپیان گاﺅں میں مظاہرین او ر بھارتی پولیس کے درمیان پر تشدد جھڑپوں میں نصف درجن نوجوان افراد پیلٹ لگنے سے بھی مضروب ہوئے۔ جبکہ بھارتی فورسز نے جدید ہتھیاروں سے شلنگ کی جسمیں 3 رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ جبکہ دو کو شدید نقصان پہنچا۔
پولیس نے بتایا کہ فائرنگ سے ایک خاتوں شہنواز بانو زوجہ فاروق احمد کوکہ نامی ایک جواں سال خاتون بھی شدید زخمی ہوئی تھی جس کی دونوں ٹانگوں میں گولیاں پیو ست ہوئی تھیں۔اس دوران ایک مکان کو مارٹر شلوں سے مکمل تباہ کیا گیا جبکہ اس میں آگ بھی نمودار ہوئی تھی جبکہ اسکے ساتھ دو گاﺅ خانے بھی تباہ ہوئے۔
فورسز نے مارٹر گولے داغے جس کے نتیجے میں ایک اور رہائشی مکان اور ایک گاﺅ خانے کو شدید نقصان پہنچا۔ صبح ساڑھے 9بجے کے قریب 3 حریت پسندوں جنکو بھارتی پولیس جنگجوﺅں کا نام دیتی ہے کے جاں بحق ہونے کیساتھ ہی فوجی آپریشن اختتام کو پہنچی۔بعد میں ملبے سے لاشوں کو نکالا گیا اور دن کے ایک بجے تک یہاں فورسز اہلکار تلاشیاں لے رہے تھے۔ ایک بجے کے بعد محاصرہ ختم کیا گیا۔
تین کشمیری شہید وں کو بھارتی فورسز نے انکے ورثاءکے حوالے نہیں کیا بلکہ بھارتی فورسزنے انکو پنے ساتھ لے گئی، تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تینوں مقامی نوجوان تھے ، اور بھارتی فورسز اور پولیس اہکار نوجوانوں کی لاشوں کو انکے اہل خانہ کو حوالے نہ کرنا ایک بہت ہی بڑا المیہ ہے اور انسانی حقوق کی بدتریں پامالی ہے سخت بندش کے باوجود مقامی لوگوں نے تینوں کی غائبانہ نماز جنازہ میلہورہ زینہ پورہ شوپیان گاﺅں میں ادا کی گئی جس میں قریب ڈیڑھ ہزار کے لوگ شامل ہوئے۔
بدھ کی صبح یہاں مظاہرین اور فورسز میں پھر سے شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے دوران پیلٹ لگنے سے 5افراد زخمی ہوئے جن میں سے دو کی آنکھوں میں پیلٹ آئے تھے، جنہیں سرینگر منتقل کردیا گیا جبکہ دیگر تین کو پرائمری ہیلتھ سینٹر وچی میں ہی علاج و معالجہ کیا گیا۔
شوپیان میلہورہ زینہ پورہ میں ایک ہی ہفتے کے دوران 7 نوجوانوں کی بھارتی فورسز نے تلاشیوں اور محاصرے آپریشن کے دوران شہیدکیا جبکہ جنوبی کشمیر میں محض 12روز کے دوران 7مختلف واقعات میں 16 کشمیری حریت پسند شہیدو جاں بحق ہوئے ہیں۔
کپوارہ کے علاقہ کرالہ گنڈ لنگیٹ ہندوارہ میں نامعلوم افراد نے کی فائرنگ سے ماں بیٹا شدید طور پر زخمی ہوئے۔واقعہ کے بعد فورسز نے عکاقے کو گھیرے میں لیکر تلاشی آپریشن شروع کیا ہے۔
35سالہ علی محمد بیگ ولدحبیب اللہ بیگ پر اندھا دھند گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوا۔ گولیوں کی زد میں اسکی والدہ سارہ بیگم بھی آگئی اور وہ بھی شدید زخمی ہوئیں۔ دونوں کو فوری طور پر ضلع اسپتال ہندوارہ لیا گیا جہاں سے انہیں انتہائی نازک حالت میں بارہمولہ اسپتال منتقل کردیا گیا۔دونوں کی حالت تشویشناک ہے۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ علی محمد کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔ وہ ایک سابق ایس پی او تھا لیکن 5سال قبل اس نے نوکری چھوڑی تھی اور تب سے وہ مزدوری کرتا تھا۔
بھارتی فوج اور فورسز نے بدھ کو دہرن اسلام آباد اور امبر پورہ تارزو سوپور کا محاصرہ کیا اور تلاشیاں شروع کیں۔ اطلاعات ملنے تک علاقے کا کریک ڈاﺅن جاری تھا تا
لاک ڈاﺅن کے بیچ سرینگر سمیت وادی کشمیر کے شمال و جنوب میں نظام زندگی مکمل طور پر ٹھپ ہے۔اس دوران سرینگر میں امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کی پاداش میں38دکانوں کو سربمہر کیا گیا۔سرینگر کا دیگر اضلاع کیساتھ زمینی رابطہ معطل ہے کیونکہ بین ضلعی ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی عائد ہے۔ تاہم یاد رہے بھارتی انتظامیہ نے کشمیری عوام کو گھروں میں قید کرکے رکھا اور لاک ڈاﺅن نام دیکر خود بھارتی فورسز کورونا وائرس میں گھر گھر تلاشیاں ، عوام کو ہراساں، گرفتاریاں اور آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں
مقامی لوگوں اور سول سوسائٹی نے اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت اور اسکی انتظا میہ کشمیریوں کا قتل عام کررہی ہے اور انکی اقتصادی صورتحال کو تباہ ور برباد کررہی ہے اور کشمیریوں کے خلاف نئے نئے قوانیں نافذ ہے کشمیر یوں کو حقائق او صحیح صورتحال سے بے خبر رکھا جارہا ہے
سرینگر کے نوہٹہ میں ایک گرینیڈ حملے میں بھارتی پولیس و فورسز کے 4اہلکار زخمی ہوئے۔بتایا جاتا ہے کہ رات دیر گئے نوہٹہ علاقے میں فورسز ونگ ایس ایس بی پر گرینیڈ پھینکا گیا جو اہلکاروں کے درمیان زوردار ھماکہ سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں سب انسپکٹر سمیت 4اہلکار زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کردیا گیا۔زخمی اہلکاروں کی شناخت سب انسپکٹر انوراگ راﺅ، پولیس کانسٹیبل عبدالمجید، ہیڈ کانسٹیبل سناتا کمار اور کانسٹیبل دو گیش شامل ہیں۔واقعہ کے بعد علاقے کو محاصرے میں لیا گیا۔
جموں کشمیر انتظامیہ نے بھارتی سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی بنیادی حقوق میں شامل نہیں ہے اور حق آزادی اظہار اور انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت پر حکومت روک لگا نے کا اختیار رکھی ہے۔جموں کشمی گورنر انتظامیہ نے عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا کہ انٹرنیٹ کی رفتار پر روک لگاکر اس پر جو محدود پابندی عائد کی گئی ہے ایک بیان حلفی پیش کیا جس میں لکھا ہے”انٹر نیٹ تک رسائی بنیادی حقوق کا حصہ نہیں ہے اور آئینی دفعات کے تحت آزادی اظہار خیال اورانٹر نیٹ کے ذریعے تجارت پر روک لگائی جاسکتی ہے“۔