اب تک 41,375 گرفتار، 4کو سزائے موت ،25کو عمر قید،2755کو10سے 17سال تک کی سزا اور18701کو 5برس کی قید ہوئی

 سرینگر۔ دسمبر9/, 2012 کشمےر مےں1990سے عوامی تحرےک آزادی کی سے 2012 دسمبر تک انسانی حقوق کے حوالے سے نہ صرف وادی میں کام کررہی کئی انجمنوں نے اعداد وشمار پیش کئے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس حوالے سے تحریری طور پر وقتاً فوقتاً کشمےر میں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کیاہے۔اس متناز عہ علاقے میں کوئی بھی ادارہ اب تک گرفتاریوں،حراستی گمشدگیوں ،حراستی قتل اور دیگر واقعات کے حوالے سے مصدقہ طور پر اعداد وشمار پیش نہیں کرسکا ہے کیونکہ کسی بھی غیر سرکاری ادارے نے اس ضمن میں دستاویزتیار نہیں کئے ہیں۔غالباً پہلی بار انٹرنیشنل فورم فار جسٹس ، و ہومےں رائٹس فورم جموں کشمےر نے کشمےرےوں کو کشمےر اور اس سے باہر مختلف پولیس تھانوں میں درج کئے گئے معاملات کے اعداد وشمار پیش کئے ہیں۔ان اعداد وشمار کے مطابق جموں وکشمیر میں 90کی دہائی کی ابتداء سے ہی گرفتاریوں کا بے تحاشا سلسلہ شروع ہوا اور اب تک کشمےراور کشمےر سے باہر بھارت کے جےلوں میں41,375کشمیری جن میں نوجوان،بزرگ،اسکول بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ،کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جن میں 3217حرےت پسند(جن پرکشمےری مجاہدےں سے تعلق رکھنے کے جرم مےں ےابھارت کے خلاف آواز اٹھانے کاالزام تھا )،113خواتین اور2524اسکولی بچے بھی شامل ہیں۔مختلف مقامات پر پتھراﺅ کے الزام میں اب تک گرفتار کئے گئے 2540 سکول طلباء میں سے اگرچہ بیشتر کو عدالتی احکامات پر رہا کیا گیا تاہم 1200بچوں کے بارے میں کشمےر کی انتظامےہ نے عام معافی کا اعلان کرکے رہا کرنے کا دعویٰ کیا ہے جوکہ انسانی حقوق سے وابستہ سرگرم انجمنوں کی جانب سے بے بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے۔90کی دہائی سے اب تک گرفتار کئے گئے افراد کو مختلف عدالتوں کی طرف سے سزائے موت ،عمر قید ،10،7اور 5برسوں کے تحت بھی متعدد افراد کو سزائیں دی گئیں ہیں۔اعداد وشمار کے مطابق ان22برسوں کے دوران گرفتار کئے گئے کشمیریوں میں سے 2755قیدیوں کوکشمےر اور کشمےر سے باہر بھارتی عدالتوں نے 10سے17برس کی قید با مشقت کی سزا کے بعد رہا کردیا جبکہ4163افرادکو 5سے8برس کی اسیری کے بعد رہا کےاگےا۔اسکے علاوہ اب تک18701کشمیریوںکو ایک سے 5برس کی سزا پانے کے بعد رہا کیا گیا۔اس دوران اب بھی مختلف عدالتوں میں 1627کشمیریوں کے کیسوں کی سماعت جاری ہے اور انہیں مختلف کیسوں کا سامنا ہے جن میں 541افراد کے کیسوں کی سماعت بھارتی رےاستوں میں جاری ہے۔اب تک گرفتار کئے گئے کشمیریوں میں 5قیدیوں کے خلاف عدالتوں کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی جن میں سے بھارتی سپریم کورٹ نے 4کو سزا کالعدم قرار دی تاہم محمد افضل گورو کی سزا برقرار رکھی گئی ہے۔اعداد وشمار کے مطابق مختلف عدالتوں کی جانب سے 25افراد کے خلاف عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔جن میں اجمیر کی عدالت نے شبیر احمد نجارکے خلاف عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ بھارتی سہارنپورجیل میں 5کشمیری نوجوانوں میں سے4دس سال کی جبکہ ایک عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔بھارتی پٹنہ بہار میں 3کشمیری نوجوان عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ بھارت کے راجستھان میں6افراد10برس کی سزا کاٹ رہے ہیں۔جموں وکشمیر کی جیلوں میں18افراد عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔اسکے علاوہ بھارتکے ممبئی میں 13کشمیریوں میں 5پر7برس کی سزا جبکہ 8پر 10برس قید بامشقت کی سزا عائد کی گئی ہے۔معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ کشمےر اور بھارتی عدالتوں کی جانب سے کئی برس سزا پانے کے بعد بے قصور قرار دئے گئے افراد کے حق میں بازآبادکاری کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔حال ہی میں دلی کی ایک عدالت کی جانب سے 17برس جیل میں گزارنے والے کشمیری نوجوان کو رہا تو کردیا گیا تاہم مذکورہ نوجوان کو جرم بے گناہی میں پھنسانے والے افسران اور اہلکاروں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی۔اس سلسلے میں SAHRJA
 کے ساتھ بات کرتے ہوئے کشمےر کے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن و انٹرنیشنل فورم فار جسٹس محمد احسن انتو نے کہاکہ 10 دسمبرعالمی سطح پر انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے لیکن کشمیریوں کے ساتھ جو پولیس اور عدالتوں کی جانب سے جو سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ سراسر امتیازی ہے۔انہوں نے بھارت آندھرا پردیش کی عدالت کا حوالہ دیتے ہوئیے کہاکہ مکہ مسجد دھماکہ کے ملزمین جو جببے قصور قرار دے کر رہا کردیا گیا تو ان کے حق میں بازآبادکاری اور ان کی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے کریکٹر سرٹیفکیٹ اجرا کرائی گئی لیکن جن کشمیریوںکو کئی کئی برسوں کی قید بامشقت کے بعد بے قصور قرار دے کر رہا کیا گیا ،انکی بازآبادکاری اور ان کی سماج میں عزت و وقار کی بحالی کیلئے اقدامات کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔محمد احسن انتو نے کہاکہ گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں کشمےر اور بھارت کے شہروں مےں کشمیریوں کی اتنی بڑی تعداد کی گرفتاری اور ان کے خلاف فرضی کیس گڑھنے کے بارے میں کوئی سوال کھڑا کیوں نہیں کررہا۔انہوںنے کہاکہ حقوق انسانی کے بین الاقوامی اداروں پر زور دیا کہ کشمیری قیدیوں کے کیسوں کی جامع تحقیقات کرائی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ جو اعداد وشمار انہوں نے پیش کئے ہیں یہ وہ معاملات ہے جن کے حوالے سے کشمےر اور کشمےرسے باہر پولیس تھانوں میں کیس درج ہیں۔