سوپور کے28سالہ ایم اے ایکو نا میکس کاطالب علم خو رشید احمد بٹ عرف عادل ولد ولی محمد بٹ کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا

نومبر22 2011, : اکےس سال قبل سی آر پی ایف کے ہاتھوں گرفتار شمالی قصبہ سوپور کے28سالہ ایم اے ایکو نا میکس کاطالب علم خو رشید احمد بٹ عرف عادل ولد ولی محمد بٹ کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا اور رشتہ داروں ابھی بھی آ س لگائے بیٹھے ہیں آج نہیں تو کل ان کا بیٹا ضرورواپس لوٹے گا۔25ستمبر 1990کو 50بٹالیں سی ٓر پی ایف اہلکاروں نے ڈی ایس پی میمان لکھا سنگھ اور ومن موہن شرما عرف جیوتی سنگھ کی قیادت میں انہیں اقبال مارکیٹ سوپور میں اپنی دکان سے گرفتار کر لیا۔28سالہ خورشید احمد بٹ کے بڑے بھائی بشیر احمد بٹ نے کہا کہ 25ستمبر 1990 کو ان کو سوپور میں اپنے لایٹ اینڈ سا ونڈ کے دکان پر سے صبح قریب سوا دس بجے سی آر پی ایف 50بٹالین اہکاروںکی ایک گاڈی زیر نمبر DL 1712 زیر کمپنی نمبرDIC156 گرفتار کرکے انہیں فروٹ منڈی سوپو مےں قائم سی آر پی ایف 50بٹالین کے کیمپ پر پہنچا ر انٹرا گیشن سینٹر جاگیر سوپور منتقل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 26ستمبر 1990کو قصبہ سوپور میں کرفیو نافذ کیا گیا جس کی وجہ سے وہ کئی روز تک لخت جگر کو تلاش کرنے کے لئے کیمپ پر نہ جاسکے تاہم اگلے ہی روز لواحقین ٹریڈرس فیڈریشن سوپور کے عہدے داروں کے ہمراہ سی آر پی ایف کیمپ پر پہنچے جہاں انہوں نے مذکورہ کمپنی کمانڈنٹ کرپال سنگھ سے بات کی جنہوں نے اس گرفتاری سے انکار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ پولیس سٹیشن سوپور گئے جہاں اس حوالے سے کیس زیر نمبر 258/1990زیر دفعہ302درج کیا گیا اور اس وقت کے ایس ایچ او محمد یونس نے تحقیقات کا یقین دلایا۔ خورشید کی والدہ فاطمہ بیگم نے پ±ر نم آنکھوں سے کہا کہ جب انہیں بیٹے کا کوئی سراغ نہیں ملا تو انہوں نے ریاستی پولیس کے سربراہ کے نام ایک چٹھی زیر نمبر PS/ADV/Q/7474روانہ کی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ مئی 1991میں لواحقین نے ہائی کورٹ سرینگر میں ایک عرضی زیر نمبر 02-25بتاریخ10مئی1991دایر کی جنہوں نے سوپور پولیس سے اس سلسلے میں جواب طلب کیا اور پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ کچھ ہفتے قبل سی آر پی ایف اہکاروں کی مذکورہ کمپنی نے کئی نو جوانوں کو ان کے سپرد کیا جنہیں رہا کیا گیا۔ لواحقین نے کہا کہ جب انہوں نے رہا ہونے والے نوجوانوں سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ انٹراگیشن سے خورشید احمد کی حالت ابتر ہوگئی تھی اور انہیں خدشہ ہے کہ وہ جاںبحق ہوا ہوگا۔انٹروگیشن سنٹر میں موجود دیگر ساتھیوں نے بتا یا کہ خورشید احمد کو ایک کال کوٹھری میں بند کیا گیا اور صرف شام کا کھانہ دیا جاتااور کرپال سنگھ کمانڈنگ آفیسر کے علاوہ رام چند ر عرف چچا اور کانسٹیبل نے گھیبراسنگھ نے خورشید کا شدید ٹارچر کیا جس کی بنا پر وہ اپنی ٹانگوں پر بھی کھڑا نہیں ہوپاتا تھا۔خورشید کی گرفتار ی کو اب 21سال ہوگئے لیکن اس کے والد ین کو ابھی بھی اپنے لخت جگر کی واپسی کا انتطار ہے اور اسی آس میںخورشید کی والدہ اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہی ہے۔